Pages

کرونا وائرس: پہلے ہلاک پاکستانی فرد کی کہانی اور پاکستان کی بےبسی۔

پاکستان کورونا وائرس کے سامنے کس طرح بے بس ہو رہا ہے؟


پچاس سالہ سعادت خان جب نو مارچ کو سعودی عرب سے واپس آئے تو ان کا گاؤں میں پرجوش استقبال کیا 

گیا تھا۔ انہوں نے اس تقریب میں بھی شرکت کی، جہاں تقریباً دو ہزار افراد ان سے ملنے آئے تھے اور وہ 

سینکڑوں افراد سے گلے ملے تھے۔

اٹھارہ مارچ کو سادات خان مردان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے بنائے گئے ایک آئسولیشن 

سینٹر میں وفات پا گئے۔ ان کی ہلاکت اس دن ہوئی، جس دن انہیں کووڈ انیس ہونے کی تصدیق ہوئی۔

سعادت خان وہ پہلے شخص تھے، جو پاکستان میں کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے۔ اب دو سو بیس ملین کی آبادی 

والے اس ملک میں یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وائرس سے دنیا بھر میں پہلے ہی تین لاکھ اسی ہزار 

سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

سعادت خان کے گاؤں میں بڑے پیمانے پر افراتفری پھیل چکی ہے۔ مقامی رہائشیوں کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے 

ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شروع شروع میں کسی نے بھی اس خطرے کو اہم نہیں لیا تھا۔

مقامی سوشل ورکر لیاقت علی شاہ کا کہنا تھا، ”سینکڑوں افراد کو شک ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے 

ہیں لیکن نہ تو وہ بتا رہے ہیں اور نہ ہی ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ ان کا بائیکاٹ کر دیا 

جائے گا۔"

سعادت خان کی ہلاکت کے بعد یونین کونسل مانگاہ کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا تھا اور کسی کو باہر یا اندر جانے سے 

روک دیا گیا تھا۔ صوبائی حکومت کے مطابق تقریباً سات ہزار افراد پر مشتمل اس دیہات کو قرنطینہ قرار دے 

دیا گیا ہے اور لوگوں کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سروے کرنے والے طبی 

اہلکاروں میں سے کسی کے پاس بھی ٹیسٹ کٹ نہیں تھی۔

مقامی طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ٹیسٹ کیٹس محدود ہیں اور وہ ہر کسی کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ 

صرف ان مریضوں کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، جن میں علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔

ایک مقامی اسکول ٹیچر کا کہنا تھا کہ نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود جن چار لوگوں میں 

کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں، وہ چاروں روپوش ہو گئے ہیں۔ محکمہ صحت نے بھی اس کی تصدیق کی 

ہے اور روپوش ہونے والوں میں سعادت خان کے خاندان کے دو ممبر بھی ہیں۔ محکمہ صحت کےمطابق روپوش 

ہونے والے چاروں مریضوں میں کورونا کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن وہ غائب ہیں۔

ابھی تک کورونا وائرس سے متاثرہ سب سے زیادہ مریض سندھ میں منظر عام پر آئے ہیں۔ انڈس ہسپتال میں 

ماہر وبائی امراض ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کراچی میں چند ہی ہسپتال کووڈ انیس کے مریضوں کا بہتر 

علاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن کم گنجائش کی وجہ سے وہ بھی اپنے دروازے بند کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر 

نسیم کا کہنا تھا، ”ہم اب جو مرضی کر لیں، اس وبا کے پھیلاؤ کو اب روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اور ہم اتنے زیادہ 

مریضوں کو ایک ساتھ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم کئی سطحوں پر بری طرح گریں گے۔"

No comments:

Post a Comment