پاکستان کے ضلع جہلم میں عدالت نے ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر کچھ مذہبی شخصیات کو نقصان پہنچانے کی بات کرنے والے انجینیئر محمد علی مرزا کی ضمانت منظور کر لی ہے جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔
چار مئی کو جہلم پولیس نے آن لائن مذہبی لیکچر دینے والے محمد علی مرزا کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
ڈی پی او جہلم عمر فاروق کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف سیکشن 153 اے (جو کسی ایسے شخص کے خلاف لگایا جاتا ہے جو نفرت انگیز گفتگو اور کسی دوسری کے خلاف اشتعال دلانے کا مرتکب ہو) کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔
انھوں نے معاملے کی قانونی کارروائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے محمد علی مرزا کو گرفتار کرنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کیں اور انھیں عدالت میں پیش کیا جہاں سے پولیس کو ان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا لیکن اسی ریمانڈ کے دوران ملزم نے بھی عدالت سے رجوع کیا اور انھیں وہاں سے ضمانت مل گئی۔
گرفتاری کی وجہ بننے والی ویڈیو میں کیا تھا؟
انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں محمد علی مرزا پیری مریدی، اور بیعت کی شرعی حیثیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں جس میں وہ اپنی بات کے ثبوت میں متعدد احادیث کے حوالے پیش کرتے ہیں۔
اس دوران جب وہ پاکستان میں مقبول چند مذہبی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں تو سامعین میں موجود ایک شخص نے انھیں ٹوک کر کہتا ہے کہ ’ایسی بات نہ کریں یہ آپ زیادتی کر رہے ہیں‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’جب آپ قرآن و سنت اور حدیث سے دلیل لے رہے ہیں تو میں بات پوری کروں گا۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں ایک اور کتاب کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے۔
انجینیئر محمد علی مرزا کون ہیں؟
محمد علی مرزا جہلم میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں وہ ایک اکیڈمی چلاتے ہیں جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محمد علی مرزا آن لائن مذہبی لیکچر بھی دیتے ہیں اور اپنے نام سے یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں جہاں وہ مختلف معاشرتی و مذہبی موضوعات پر مبنى گفتگو کرتے ہیں۔
ان کے لیکچر یوٹیوب پر بہت مقبول ہیں اور انھیں لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔
محمد علی مرزا کی مقبولیت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حساس موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ ان کے خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگ ان کے انداز گفتگو کو تنقیدی انداز میں دیکھتے ہیں۔
اس واقعے سے قبل بھی ان کی بیشتر تقریروں پر بہت سے تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں تاہم لوگوں میں ان کے لیے پسندیدگی اور مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے۔
گرفتاری پر پولیس کا مؤقف
ڈی پی او جہلم عمر فاروق نے بتایا کہ محمد علی مرزا کا جو ویڈیو کلپ وائرل ہوئی تھی جس میں انھوں نے چند شخصیات کا نام لے کر کہا کہ ان لوگوں کو قتل کر دینا چاہیے، جس کی وجہ سے ان سے اختلاف کرنے والے دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مشتعل ہو رہے تھے، اس لیے پولیس نے یہ کارروائی کی۔
انھوں نے کہا کہ وہ یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ مقدمہ کسی مذہبی اختلاف کی وجہ سے درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس لیے کیا گیا کیونکہ انھوں نے مذہبی شخصیات کا نام لے کر انھیں قتل کرنے کو کہا، اس لیے مقدمہ پولیس کی اپنی مدعیت میں درج کیا گیا
No comments:
Post a Comment