Pages

واٹس ایپ کا وہ کارآمد فیچر جس سے آپ شاید اب تک ناواقف ہیں!



سماجی رابطے کی اہم ویب سائٹ واٹس ایپ کے میسجز آئی او ایس اور اینڈرائیڈ پر کس طرح شیڈول کر کے بھیجے جا سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل طریقے کارآمد ہیں۔


واٹس ایپ فوری طور پر پیغامات کی ترسیل کرنے والا دنیا بھر میں نہایت مقبول پلیٹ فارم ہے، جسے 2 ارب لوگ استعمال کر رہے ہیں، اس کے چند نہایت مفید اور مؤثر فیچرز ہیں، جن میں گروپ کالز، ڈیلیٹ سب کے لیے، لاسٹ سین، اور مزید کئی فیچرز شامل ہیں۔

تاہم ایک فیچر ایسا ہے جو ابھی تک واٹس ایپ پر نہیں آیا، یہ فیچر ہے میسج شیڈول کرنے کا، ایسی کوئی رپورٹ بھی تاحال سامنے نہیں آئی کہ کمپنی اس فیچر پر کوئی کام کر رہی ہو اور جلد یہ لانچ ہونے والا ہو، بہرحال، چند طریقے ایسے ہیں پر عمل کرتے ہوئے آپ واٹس ایپ میسجز شیڈول کر سکتے ہیں۔ یہ طریقے اینڈرائیڈ اور iOS دونوں یوزرز کے لیے ہیں۔

اینڈرائیڈ پر کیسے میسج شیڈول کریں؟

نوٹ: اینڈرائیڈ پر یہ طریقہ آزمانے کے لیے آپ کو ایک تھرڈ پارٹی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا پڑے گا جو آپ کے واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی مانگے گا، چناں چہ اگر آپ اپنی پرائیویسی کے بارے میں فکرمند ہیں اور کسی تھرڈ پارٹی ایپ کو رسائی دینا نہیں چاہتے تو آپ کو تب تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک واٹس ایپ خود آفیشلی یہ فیچر لانچ نہ کر دے، باقی کے لیے طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے:
گوگل پلے اسٹور سے SKEDit ایپ ڈاؤن لوڈ کریں، پھر اسے کھولیں اور اپنا اکاؤنٹ بنائیں۔
سائن اِن کرنے کے بعد فہرست سے واٹس ایپ سلیکٹ کریں اور ایک بار پھر واٹس ایپ پر کلک کریں، اب آپ کو اسے اپنے فون سروس کی رسائی کی اجازت دینی ہوگی۔
اس کے بعد ایپ کی طرف واپس لوٹ جائیں اور جس کو پیغام بھیجنا چاہ رہے ہوں اس کا نام لکھیں، پھر اپنا پیغام لکھیں، اور آخر میں شیڈول تاریخ اور وقت درج کر دیں۔
آخری ٹوگل جو آپ دیکھیں گے وہ ہے ‘بھیجنے سے قبل مجھ سے پوچھ لیں’ آپ اسے آن کر سکتے ہیں، جس پر یہ ایپ آپ کو مقررہ وقت پر میسج بھیجتے وقت مطلع کر دے گا،یا پھر آپ اسے آف کر دیں، اور آپ کا میسج وقت پر چلا جائے گا۔

iOS پر کیسے میسج شیڈول کریں؟

نوٹ: آئی او ایس پر واٹس ایپ میسج شیڈول کرنے کے لیے کسی تھرڈ پارٹی ایپ کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کے لیے بس آپ کو Siri شارٹ کٹس استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کا طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے:
ایپل ایپ اسٹور سے Shortcuts ایپ ڈاؤن لوڈ کریں، ایپ کے اندر سب سے نیچے موجود آٹومیشن آپشن کو سیلیکٹ کریں۔
پرسنل آٹومیشن شامل کرنے کے لیے سب سے اوپر دائیں طرف ‘+’ کے نشان کو دبائیں، اور پرسنل آٹومیشن آپشن کو سیلیکٹ کریں۔
اب شیڈول میسج کے لیے وقت اور تاریخ کا انتخاب کریں اور پھر نیکسٹ دبائیں، اس کے بعد ‘ایڈ ایکشن’ سلیکٹ کریں اور پھر ‘ٹیکسٹ’ آپشن بھی سیلیکٹ کرلیں۔
اب اپنا پیغام لکھیں اور پھر نیچے موجود ‘+’ کا نشان دبائیں۔
واٹس ایپ سیلیکٹ کریں، اور ایکشنز لِسٹ میں سے ‘واٹس ایپ کے ذریعے میسج بھیجیں’ کا آپشن سیلیکٹ کر لیں۔
جس کو میسج بھیجنا ہو اس کا نمبر درج کریں اور نیکسٹ دبائیں، اب تمام تفصیلات پر نگاہ دوڑائیں اور ‘done’ سیلیکٹ کر لیں۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 36 ہزار سے بڑھ گئی۔

  • دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 43 لاکھ سے بڑھ گئی ہے جبکہ دو لاکھ 97 ہزار سے زائد افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
  • پاکستان میں متاثرین کی تعداد 36 ہزار سے بڑھ گئی ہے جبکہ 770 افراد اس مرض سے ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ 275 ہلاکتیں صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوئی ہیں۔
  • عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کووڈ 19 کبھی بھی ختم نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا: ’ایچ آئی وی بھی ختم نہیں ہوا ہے مگر ہم نے اس وائرس کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے۔‘
  • امریکہ نے کہا ہے کہ وہ سینٹ پیٹرزبرگ کے ہسپتال میں آگ لگنے کی انکوائری مکمل ہونے تک وہ روسی وینٹیلیٹرز استعمال نہیں کرے گا جن پر شبہ ہے کہ ان سے آگ لگی تھی۔
  • امریکہ کی تین بڑی ایئر لائنز نے اپنے عملے کو کہا ہے کہ وہ اس پالیسی کا اطلاق نہ کریں جس کے تحت مسافروں پر لازم ہوگا کہ وہ طیاروں پر سفر کے دوران ماسک پہننیں۔
  • برطانیہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے ہسپتالوں اور دیگر جگہوں پر کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 33 ہزار 186 ہو گئی ہے۔
  • یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سرحدوں پر بتدریج کنٹرول ہٹانے کی تجویز دی ہے تاکہ کورونا وائرس کی وبا سے زیادہ متاثر ہونے والی سیاحت کی انڈسٹری کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
  • پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے پیش نظر جم اور ہیلتھ کلبز، حجام کی دکانوں اور سیلونز کے لیے معیاری طریقہ کار (ایس او پی) جاری کر دیے ہیں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کون ہیں اور انھیں کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟





پاکستان کے ضلع جہلم میں عدالت نے ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر کچھ مذہبی شخصیات کو نقصان پہنچانے کی بات کرنے والے انجینیئر محمد علی مرزا کی ضمانت منظور کر لی ہے جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔

چار مئی کو جہلم پولیس نے آن لائن مذہبی لیکچر دینے والے محمد علی مرزا کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔

ڈی پی او جہلم عمر فاروق کے مطابق انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف سیکشن 153 اے (جو کسی ایسے شخص کے خلاف لگایا جاتا ہے جو نفرت انگیز گفتگو اور کسی دوسری کے خلاف اشتعال دلانے کا مرتکب ہو) کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔

انھوں نے معاملے کی قانونی کارروائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے محمد علی مرزا کو گرفتار کرنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کیں اور انھیں عدالت میں پیش کیا جہاں سے پولیس کو ان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا لیکن اسی ریمانڈ کے دوران ملزم نے بھی عدالت سے رجوع کیا اور انھیں وہاں سے ضمانت مل گئی۔
گرفتاری کی وجہ بننے والی ویڈیو میں کیا تھا؟

انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں محمد علی مرزا پیری مریدی، اور بیعت کی شرعی حیثیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں جس میں وہ اپنی بات کے ثبوت میں متعدد احادیث کے حوالے پیش کرتے ہیں۔

اس دوران جب وہ پاکستان میں مقبول چند مذہبی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں تو سامعین میں موجود ایک شخص نے انھیں ٹوک کر کہتا ہے کہ ’ایسی بات نہ کریں یہ آپ زیادتی کر رہے ہیں‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’جب آپ قرآن و سنت اور حدیث سے دلیل لے رہے ہیں تو میں بات پوری کروں گا۔

اس کے بعد انھوں نے اپنے مؤقف کی تائید میں ایک اور کتاب کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے۔

انجینیئر محمد علی مرزا کون ہیں؟

محمد علی مرزا جہلم میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں وہ ایک اکیڈمی چلاتے ہیں جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محمد علی مرزا آن لائن مذہبی لیکچر بھی دیتے ہیں اور اپنے نام سے یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں جہاں وہ مختلف معاشرتی و مذہبی موضوعات پر مبنى گفتگو کرتے ہیں۔

ان کے لیکچر یوٹیوب پر بہت مقبول ہیں اور انھیں لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

محمد علی مرزا کی مقبولیت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حساس موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ ان کے خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگ ان کے انداز گفتگو کو تنقیدی انداز میں دیکھتے ہیں۔

اس واقعے سے قبل بھی ان کی بیشتر تقریروں پر بہت سے تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں تاہم لوگوں میں ان کے لیے پسندیدگی اور مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے۔
گرفتاری پر پولیس کا مؤقف

ڈی پی او جہلم عمر فاروق نے بتایا کہ محمد علی مرزا کا جو ویڈیو کلپ وائرل ہوئی تھی جس میں انھوں نے چند شخصیات کا نام لے کر کہا کہ ان لوگوں کو قتل کر دینا چاہیے، جس کی وجہ سے ان سے اختلاف کرنے والے دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مشتعل ہو رہے تھے، اس لیے پولیس نے یہ کارروائی کی۔

انھوں نے کہا کہ وہ یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ مقدمہ کسی مذہبی اختلاف کی وجہ سے درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس لیے کیا گیا کیونکہ انھوں نے مذہبی شخصیات کا نام لے کر انھیں قتل کرنے کو کہا، اس لیے مقدمہ پولیس کی اپنی مدعیت میں درج کیا گیا

احتیاط نہ کی گئی تو دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا۔۔




وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کو کھولنے کا قدم عوام کے تعاون سے ہی کامیاب ہو سکتا ہے تاہم اگر شہریوں نے احتیاط نہ کی تو حکومت کو دوبارہ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا۔

وزیر اطلاعات نے جمعے کی صبح ٹوئٹر پر ایک بیان شیئر کرتے ہوئے کہا: ’عوام کی صحت کی حفاظت اور معاشی روانی کوساتھ لے کر چلنا ہے۔ل اک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا فیصلہ پِسے ہوئے کمزور طبقات کے لیے جذبہ احساس کا مظہر ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح چھوٹے کاروباروں کو سہارا ملے گا جبکہ طویل المعیاد لاک ڈاؤن چھوٹے کاروبار والوں کے روزگار کو ہمیشہ کے لئے ٹھپ کرسکتا ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کاروباری شعبوں کیلئے بنائے گئے ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا ہوگا اور کہا کہ کورونا پوری قوم کا مشترکہ مسئلہ ہے اور عوام کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہے۔

۔کورونا وائرس کچھ ممالک میں زیادہ جان لیوا کیوں؟ جواب سامنے آگیا۔




نئے نوول کورونا وائرس سے ایشیا کے مقابلے میں یورپ اور امریکا میں زیادہ اموات ہوئی ہیں اور طبی ماہرین کے لیے یہ سوال معمہ بنا ہوا تھا کہ مختلف خطوں میں ہلاکتوں کی شرح میں اتنا فرق کیوں ہے۔

اب چین کے سائنسدانوں نے اس کا جواب دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیا وائرس کچھ ممالک میں بہت زیادہ جان لیوا کیوں ثابت ہورہا ہے۔
تحقیق میں وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں کی تفتیش کے لیے غیرمعمولی طریقہ کار کو اپنایا گیا اور ہانگ زو کے 11 کووڈ 19 کے مریضوں میں سے وائرل اقسام کے نمونے حاصل کیے گئے اور پھر دیکھا گیا کہ وہ خلیات کو متاثر کرنے اور مارنے میں کتنے موثر ہیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ یورپ بھر کے بیشتر مریضوں میں اس وائرس کی جان لیوا اقسام موجود ہیں جبکہ امریکا کے مختلف حصوں جیسے ریاست واشنگٹن میں اس کی معتدل شدت کا باعث بننے والی اقسام کو دریافت کیا گیا۔

مگر نیویارک میں اسی ٹیم کی ایک الگ تحقیق میں اس وائرس کی جو قسم دریافت ہوئی، وہ یورپ سے وہاں پہنچی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہاں شرح اموات بیشتر یورپی ممالک سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔

مگر محققین کے مطابق کمزور اقسام کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کے لیے خطرہ کم ہوگیا، درحقیقت 30 اور 50 سال کی عمر کے 2 مریضوں میں وائرس کی کمزور قسم موجود تھی مگر وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے، اگرچہ وہ دونوں آخر میں بچ گئے، مگر زیادہ عمر والے مریض کو آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا۔

اس تحقیق سے مختلف خطوں میں اموات کی شرح میں فرق پر روشی ڈالی گئی، کیونکہ ابھی ہر ملک میں اموات اور کیسز کی شرح مختلف ہے اور سائنسدانوں کی جانب سے مختلف وضاحتیں کی جاتی ہیں۔

جینیاتی سائنسدانوں نے پہلے شبہ ظاہر کیا تھا کہ وائرس کی مختلف اقسام اموات کی شرح میں اس فرق کا باعث بنتی ہیں مگر کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔

اس نئی تحقیق کے نتائج اس وبا کو مزید پیچیدہ بناتی ہے کیونکہ بچنے کی شرح کا انحصار متعدد عناصر جیسے عمر، پہلے سے کوئی بیماری یا خون کے گروپ پر بھی ہوتا ہے۔

ہسپتالوں میں کووڈ 19 کے تمام مریضوں کا علاج ایک ہی بیماری سمجھ کر کیا جاتا ہے یعنی ایک جیسا علاج ہوتا ہے، مگر چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کسی خطے میں وائرس کی قسم کی وضاحت کی جانی چاہیے تاکہ اس کے مطابق علاج کیا جاسکے۔

چینی میڈیا کے مطابق پروفیسر ڈاکٹر لی لان جوآن پہلی سائنسدان تھیں جنہوں نے ووہان کو لاک ڈائون کرنے کی تجویز دی تھی اور حکومت نے جنوری کے تیسرے عشرے میں اس پر عمل بھی کیا تھا۔

اس تحقیق کا حجم چھوٹا تھا جس کا مطلب ہے کہ وائرس کی اقسام پر دیگر تحقیقی رپورٹس میں سیکڑوں یا ہزاروں اقسام بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

اس تحقیق میں 30 سے زائد اقسام کو دریافت کیا گیا جن میں سے 19 اقسام بالکل نئی تھیں۔

تحقیق کے مطابق ان تبدیلیوں سے وائرس کے اسپائیک پروٹین (وہ حصہ جو یہ وائرس کسی خلیے کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے) کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں۔

اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے تحقیقی ٹیم نے خلیات کو اس وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر کیا اور معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ جارحانہ اقسام کمزور اقسام کے مقابلے میں 270 گنا زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں جبکہ وہ خلیات کو بھی بہت تیزی سے مارتی ہیں۔