Pages

Pages

Pages

Pages

سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک بار پھر واضح کمی ۔۔۔


کراچی: سونے کی فی تولہ قیمت میں 500 روپے کی کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے قیمت 96 ہزار 200 روپے ہوگئی ہے۔

فی تولہ سونے کی قیمت میں 400 روپے جبکہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 343 روپے کی کمی ہوئی ہے۔

ایک تولہ سونا 96 ہزار 200 روپے جبکہ 10 گرام سونا 82 ہزار 562 روپے کا ہوگیا ہے۔

عالمی منڈی میں سونا 8 ڈالر کی کمی سے 1709 ڈالر فی اونس کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔

ک۟راچی صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق آج سونے کی قیمت دبئی کے مقابلے 5000 روپے کم ہے۔

- اپریل27- 2020 کے ریٹ

سونے کی فی تولہ قیمت میں 300 روپے کی کمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے قیمت 96 ہزار 700 روپے ہوگئی تھی۔

فی تولہ سونے کی قیمت میں 300 روپے جبکہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 257 روپے کی کمی ہوئی تھی۔

ایک تولہ سونا 96 ہزار 700 روپے جبکہ 10 گرام سونا 82 ہزار 905 روپے کا ہوگیا تھا۔

عالمی منڈی میں سونا 16 ڈالر کی کمی سے 1717 ڈالر فی اونس کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ک۟راچی صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی قیمت دبئی کے مقابلے 6000 روپے کم تھی۔

 اپریل25 2020 کے ریٹ

سونے کی فی تولہ قیمت میں 200 روپے کی کمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے قیمت 97 ہزار روپے ہوگئی تھا۔

فی تولہ سونے کی قیمت میں 200 روپے جبکہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 171 روپے کی کمی ہوئی تھی۔

ایک تولہ سونا 97 ہزار روپے جبکہ 10 گرام سونا 83 ہزار 162 روپے کا ہوگیا تھا۔

عالمی منڈی میں سونا 1 ڈالر کی کمی سے 1733 ڈالر فی اونس کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ک۟راچی صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی قیمت دبئی کے مقابلے 7000 روپے کم تھی۔

- اپریل 24 2020 کے ریٹ

سونے کی فی تولہ قیمت میں 1000 روپے کا اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ سے قیمت 97 ہزار 200 روپے ہوگئی تھی۔

فی تولہ سونے کی قیمت میں 1000 روپے جبکہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 858 روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

ایک تولہ سونا 97 ہزار 200 روپے جبکہ 10 گرام سونا 83 ہزار 333 روپے کا ہوگیا تھا۔

عالمی منڈی میں سونا 6 ڈالر کے اضافے سے 1734 ڈالر فی اونس کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ک۟راچی صراف جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق سونے کی قیمت دبئی کے مقابلے 7000 روپے کم تھی۔

- اپریل 23 2020 کے ریٹ

سونے کی فی تولہ قیمت میں 1200 روپے کا اضافہ ہوا تھا جس کی وجہ سے قیمت 96 ہزار 200 روپے ہوگئی تھی۔

فی تولہ سونے کی قیمت میں 1200 روپے جبکہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 1038 روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

ایک تولہ سونا 96 ہزار 200 روپے جبکہ 10 گرام سونا 82 ہزار 475 روپے کا ہوگیا تھا۔

عالمی منڈی میں سونا 28 ڈالر کے اضافے سے 1728 ڈالر فی اونس کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔

پیشگوئی سامنے آ گئی۔۔ پاکستان میں کرونا وائرس وباء کا کب تک خاتمہ ھو گا؟



پاکستان میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی وبا کو 2 ماہ مکمل ہوگئے ہیں اور اب تک 13 ہزار 304 کیسز کی تصدیق جبکہ 277 اموات ہوچکی ہیں۔
اس وبا پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے جس میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی کیا جارہا ہے اور بظاہر کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اس کے جلد خاتمے کا امکان نظر نہیں آتا۔
یعنی یہ کہنا مشکل ہے کہ کب تک ملک میں اس بیماری کے پھیلاؤ کو قابو میں کرلیا جائے گا مگر سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن (ایس یو ٹی ڈی) کی پیشگوئی کو دیکھا جائے تو پاکستان میں اس وائرس پر کنٹرول کے لیے ابھی مزید لگ بھگ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ درکار ہے۔
اس یونیورسٹی نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس ڈیٹا کے تجزیے سے دنیا بھر کے ممالک میں کووڈ 19 کی وبا کے خاتمے کے وقت کی پیشگوئی کی ہے۔
اس مقصد کے لیے محققین نے مشتبہ۔ مصدقہ۔ ریکور یا ایس آئی آر وبائی ماڈل کو استعمال کیا جس کے لیے مختلف ممالک کے مشتبہ اور مصدقہ کیسز کے ساتھ صحتیاب افراد کے ڈیٹا کو استعمال کرکے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے دورانیے کی پیشگوئی کی گئی۔
سنگاپور یونیورسٹی نے پیشگوئی یا یوں کہہ لیں کہ تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان میں اس وبا پر 8 جون تک 97 فیصد قابو پالیا جائے گا۔


فوٹو بشکریہ سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن

ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں درحقیقت ابھی یہ وبا عروج پر نہیں پہنچی اور 27 اپریل سے یہ عروج پر پہنچنا شروع ہوگی، جس کے بعد کیسز کی شرح میں بتدریج کمی آئے گی اور 9 جون تک اس پر 97 فیصد، 23 جون تک 99 فیصد اور یکم ستمبر تک سو فیصد قابو پایا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹی نے واضح کیا کہ ہے کہ پیششگوئی کا تخمینے کو روزانہ نئے ڈیٹا کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جبکہ یہ تجزیہ اور تخمینہ صرف تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے ہے جس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
یونیورسٹی کے مطابق عالمی سطح پر اس وبا پر 29 مئی تک 97 فیصد قابو پایا جاسکتا ہے، یہ شرح 17 جون تک 99 فیصد اور 9 دسمبر میں سو فیصد تک پہنچے گی۔
اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ملک امریکا میں 11 مئی تک 97 فیصد قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ سوفیصد کنٹرول 27 اگست تک ممکن ہوگا۔

اٹلی میں 7 مئی، سعودی عرب میں 21 مئی، متحدہ عرب امارات میں 11 مئی، ترکی میں 16 مئی، برطانیہ میں 15 مئی، اٹلی میں 7 مئی، اسپین میں 3 مئی، جرمنی میں 2 مئی، فرانس میں 5 مئی، جاپان میں 18 مئی، ایران میں 19 مئی، انڈونیشیا میں 6 جون، ملائیشیا میں 6 مئی ، سنگاپور میں 4 جون اور بھارت میں 21 مئی تک اس وبا پر 97 فیصد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

اب یہ اے آئی تجزیہ اور تخمینہ کس حد تک درست ثابت ہوتا ہے اس کا فیصلہ آئندہ چند دن میں ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ ملک میں 26 فروری کو پہلے کیسز کے بعد سے 25 مارچ تک ملک میں کیسز کی تعداد ایک ہزار تک پہنچی تھی تاہم اس کے بعد سے آج 26 اپریل تک نہ صرف ساڑھے 10 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے بلکہ اسی عرصے میں تقریباً 200 سے زائد اموات بھی ہوئیں۔

حکومت نے اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر جاری اس جزوی لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع بھی کی تھی۔ ملک میں مجموعی طور پر صحتیاب افراد کی تعداد 2866 تک پہنچ چکی ہے۔
ڈاکٹروں نے بھی پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے مئی کے مہینے کو بہت اہم قرار دیا ہے جس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کا امکان ہے۔

ایک مریض کو کرونا وائرس سے ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگتا ھے۔




کووڈ 19 کی وبا 2019 کےآخر میں پھیلی۔ لیکن ایسی علامات موجود ہیں کہ اس کے کچھ مریضوں کو مکمل صحتیاب ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ 

ایک مریض کورونا سے صحتیاب کب ہوتا ہے یہ بیماری کی شدت پر منحصر ہے۔ کچھ لوگ اس بیماری سے جلدی صحتیاب ہوجاتے ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ کچھ مریضوں میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل طویل مدتی ہوں۔


آپ کی عمر، جنس اور صحت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ کووڈ 19 سے کس حد تک بیمار ہوسکتے ہیں۔ایک شخص کی صحتیابی کتنی دیر میں ہوگی یہ اس پر منحصر ہے کہ اس کا علاج کن حالات میں اور کتنی دیر سے ہو رہا ہے


۔علامات کم ظاہر ہوں تو صحتیابی میں کتنا وقت لگے گا؟


کووڈ 19 سے متاثرہ اکثر افراد میں صرف مرکزی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جیسے کھانسی اور تیز بخار۔ لیکن انھیں جسم میں تکلیف، تھکاوٹ، گلے کی سوزش اور سردرد بھی محسوس ہوسکتا ہے۔یہ کھانسی شروع میں خشک ہوتی ہے لیکن بعد میں کچھ لوگوں کی کھانسی میں بلغم کا اخراج ہوتا ہے جس میں پھیپھڑوں کے مردہ خلیات ہوتے ہیں۔ان علامات کا علاج بستر پر آرام، پانی یا دیگر مشروبات کا استعمال اور درد سے نجات دلانے والی ادویات جیسے پیراسیٹامول سے کیا جاتا ہے۔


کم علامات والے متاثرین جلد مکمل صحتیاب ہوجاتے ہیں۔


ان کا بخار ایک ہفتے سے کم عرصے میں ختم ہوجاتا ہے لیکن کھانسی کچھ دیر کے لیے برقرار رہ سکتی ہے۔ چین سے ملنی والی معلومات کی مدد سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحتیاب ہونے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔


اگر علامات زیادہ ظاہر ہوں تو کیا؟


کچھ لوگوں کے لیے یہ بیماری کافی خطرناک ہو جاتی ہے اور ایسا انفیکشن کے سات سے 10 روز بعد ہوتا ہے۔یہ تبدیلی اچانک رونما ہوسکتی ہے۔ سانس لینا مشکل اور پھیپھڑوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جسم کا مدافعتی نظام وائرس سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کرتا ہے جس سے جسم کو بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کو زیادہ آکسیجن کی فراہمی کے لیے ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے۔


جنرل فزیشن سارہ جاروس کہتی ہیں کہ: ’سانس کے مسئلے کو ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران جسم سوجن اور دیگر اثرات سے بحال ہوتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ایسے میں صحتیاب ہونے کے لیے دو سے آٹھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس میں تھکاوٹ مزید کچھ دیر کے لیے رہتی ہے۔


۔انتہائی نگہداشت کی ضرورت کب ہوتی ہے؟


عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کے 20 میں سے ایک مریض کو علاج میں انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس میں بیہوش کرنا اور وینٹی لیٹر کا استعمال شامل ہیں۔آئی سی یو (انتہائی نگہداشت کے وارڈ) میں رہنے کے بعد مکمل صحتیاب ہونے میں کچھ وقت لگتا ہی ہے، چاہے آپ کو کوئی بھی بیماری ہو۔ مریضوں کو گھر بھیجنے سے پہلے آئی سی یو سے عام وارڈ میں داخل کیا جاتا ہے۔

انتہائی نگہداشت کی ادویات کی ماہر ڈاکٹر الیسن کہتی ہیں کہ آئی سی یو کے بعد مکمل صحتیابی میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں۔ہسپتال کے بستر پر زیادہ وقت گزارنے سے پٹھوں کا وزن کم ہوسکتا ہے۔ مریض کمزور ہوجاتے ہیں اور انھیں دوبارہ اپنی پہلے جیسی صحت حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دوبارہ صحیح طرح چلنے پھرنے کے لیے فزیوتھراپی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔آئی سی یو میں وقت گزارنے سے جسم میں تبدیلیاں آسکتی ہیں اور نفسیاتی مسائل کا بھی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ 

کارڈفاور ویل یونیورسٹی ہیلتھ بورڈ میں انتہائی نگہداشت کے فزیوتھیراپسٹ ڈاکٹر پال کہتے ہیں کہ ’اس مرض کے ساتھ اضافی بوجھ بھی ہوتا ہے۔ وائرس کی وجہ سے تھکاوٹ ایک اہم پہلو ہے۔‘چین اور اٹلی سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ مریضوں میں صحتیابی کے بعد پورا جسم کمزور ہوجاتا ہے، ان کی سانس پھولتی ہے، کھانسی رہتی ہے اور سانس لینے میں مشکلات پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں بہت نیند آتی ہے۔’ہمیں معلوم ہے کہ مریضوں کو صحتیابی کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے، ممکنہ طور پر کچھ ماہ۔‘لیکن اس دورانیے کو سب کے لیے مختص کرنا مشکل ہے۔ کچھ لوگ انتہائی نگہداشت میں کم وقت گزارتے ہیں جبکہ کچھ کو کئی ہفتوں کے لیے وینٹی لیٹر پر رکھنا پڑتا ہے۔

کوروناوائرس کے طویل مدتی اثرات ہوسکتے ہیں؟


فی الحال کورونا وائرس کے حوالے سے طویل مدتی معلومات نہیں ہے۔ لیکن ہم دوسرے امراض سے اس کا موازنہ کر سکتے ہیں۔ایسے مریض جن میں مدافعتی نظام کے ردعمل کی وجہ سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا ہو انھیں سانس لینے میں دشواری کی حالت ’آرڈز‘ ہوسکتی ہے۔فزیوتھیراپسٹ پال کے مطابق ’ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سال بعد تک لوگوں کو جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا رہ سکتا ہے۔جنرل فزیشن ڈاکٹر جیمز گِل کہتے ہیں کہ لوگوں کو ذہنی صحت کی بہتری کے لیے بھی مدد درکار ہوتی ہے۔’آپ کو سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔ پھر ڈاکٹر کہتا ہے کہ ’ہمیں آپ کو وینٹی لیٹر پر رکھنا ہوگا۔ آپ کو سلانا پڑے گا۔ کیا آپ اپنے خاندان کو الوداع کہنا چاہتے ہیں؟‘اس طرح کی تشویش سے گزرنے والے مریضوں میں پی ٹی ایس ڈی (یا صدمے کی کیفیت) غیر معمولی نہیں۔ کئی لوگوں کے لیے اس میں نفسیاتی علامات رہ جائیں گے۔‘یہ ممکن ہے کہ کچھ کم بیمار افراد میں بھی طویل مدتی اثرات رہ جائیں، جیسے تھکاوٹ۔کتنے لوگ اب تک صحتیاب ہوئے ہیں؟اس بارے میں مستند اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہے۔


جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 20 اپریل تک کورونا وائرس سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد صحتیاب ہوچکے ہیں۔ جبکہ متاثرین کی کل تعداد 24 لاکھ سے زیادہ ہے۔لیکن مختلف ممالک اعداد و شمار کے اندراج کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر صحتیاب ہونے والے مریض اور کم علامات والے مریض شامل نہیں کیے جا رہے۔ریاضی کے مختلف طریقوں سے یہ اندازے لگائے گئے ہیں کہ بیمار ہونے والے 99 سے 99.5 فیصد افراد صحتیاب ہوجاتے ہیں۔


۔کیا کسی کو دوسری مرتبہ کورونا وائرس ہوسکتا ہے؟


اس بارے میں بہت اندازے لگائے گئے ہیں لیکن اس کے بارے میں شواہد ناکافی ہیں۔اگر ایک مریض نے کامیابی سے وائرس سے نمٹ لیا ہے تو یقیناً انھوں نے اپنے مدافعتی نظام میں اس کے خلاف ردعمل بنا لیا ہو گا۔یہ ممکن ہے کہ مریضوں میں صحتیابی کے بعد دوبارہ کورونا وائرس کی تشخیص غلط ٹیسٹنگ کا نتیجہ ہو جس میں پہلی بار غلطی سے سمجھ لیا گیا کہ وہ کورونا وائرس سے آزاد ہو چکے ہیں۔قوت مدافعت کو سمجھنا اس لیے اہم ہے کہ اس سے لوگوں کے کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے اور اس بیماری کے خاتمے کے لیے ویکسین کتنی کارآمد ثابت ہوگی۔

جراثیم کش محلول اور سورج کی روشنی سے وائرس کے خاتمے کے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟



امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا لوگوں کو جراثیم کش محلول کے انجیکشن لگانے اور کورونا وائرس کے متاثرین کے علاج میں الٹرا وائلٹ شعاعیں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

پہلا دعویٰ

’میں نے اس جراثیم کش دوا کو ایک منٹ میں کام کرتے دیکھا ہے۔ اور یہ چیز ہم جسم میں انجیکشن لگا کر کر سکتے ہیں، یا اس سے اندر کی صفائی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ چیز پھیپھڑوں کے اندر پہنچ کر زبردست کام کر سکتی ہے۔‘

صدر ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ اس وائرس کے مریضوں کو جراثیم کش محلول کے انجیکشن لگانے سے شاید اس وائرس کے علاج میں مدد مل سکے

سطح زمین پر تو جراثیم کش محلول کے سپرے سے وائرس کو مارا جا سکتا ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب یہ وائرس کسی چیز یا سطح پر ہو۔ اس بارے میں معلوم نہیں ہے کہ جب یہ انسانی جسم کے اندر چلا جاتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے۔

جراثیم کش ادویات پینے سے یا اس کا انجیکشن لگانے سے موت کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

ان خدشات کی بنیاد پر کہ لوگ اسے اچھا سمجھ کر استعمال کریں گے اور اموات ہو سکتی ہیں، ڈاکٹرز نے لوگوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ جراثیم کش ادویات پینے یا ان کا انجیکشن لگانے سے گریز کریں۔

ہارٹ فورڈ شائر یونیورسٹی میں زہریلے مادوں سے متعلق مہارت رکھنے والے پروفیسر راب چِلکوٹ کا کہنا ہے کہ ’وائرس کو غیر مؤثر کرنے کی غرض سے گردش کرنے والے خون میں بلیچ یا جراثیم کش محلول کے انجیکشن سے ممکنہ طور پر انتہائی زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اندیشہ موجود ہے، جس میں شاید بہت بھیانک موت کا امکان بھی موجود رہتا ہے‘۔

ان کے مطابق ’اس سے خلیوں کے اندر موجود وائرل زرات پر بھی اثر نہیں پڑے گا‘۔

لائیسول اور ڈیٹول جیسے جراثیم کش محلول بنانے والی کمپنی ریکٹ بینکیسر نے صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد ایک وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی حالت میں اور کسی بھی طریقے سے ہماری جراثیم کش مصنوعات کو انسانی جسم کے اندر نہ جانے دیا جائے‘۔
دوسرا دعویٰ

’میں نے کہا کہ آپ روشنی جسم کے اندر ڈال سکتے ہیں، ایسا آپ جلد کے راستے کر سکتے ہیں یا کسی اور طریقے سے بھی۔ اور میرا خیال ہے آپ نے کہا کہ آپ بھی یہ ٹیسٹ کرنے جا رہے ہیں۔ تو پھر ہم دیکھ لیں گے، لیکن روشنی کے بارے میں یہ نظریہ، کہ یہ کیسے ایک منٹ میں کسی چیز کو مار دیتی ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔‘

صدر ٹرمپ نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو ’الٹرا وائلٹ شعاعوں یا بہت تیز روشنی‘ میں رکھنے سے اس وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ عام طور پر زمین کی سطح پر وائرسز سورج کی روشنی سے جلدی مر جاتے ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کتنے عرصے تک اور کتنی حد تک انھیں الٹرا وائلٹ شعاعوں کے سامنے رہنا ہوگا تاکہ کچھ اثر سامنے آئے۔

ایک بار پھر یہ واضح رہے کہ یہ صرف متاثرہ اشیا اور سطحوں کے لیے ہے نہ کہ اس بارے میں جب وائرس آپ کے جسم کے اندر داخل ہو تو کیا ہوتا ہے۔

جس وقت یہ وائرس آپ کے جسم کے اندر سرائیت کر جاتا ہے تو پھر الٹرا وائلٹ شعاعوں سے آپ کی جلد پر کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

کِنگز کالج لندن میں فارماسوٹیکل میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر پینی وارڈ کا کہنا ہے کہ ’الٹرا وائلٹ شعاعیں اور زیادہ حرارت سطح پر وائرس کو مارنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ تاہم نہ تو سورج میں بیٹھنے اور اور نہ ہی زیادہ حرارت اس وائرس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے جو مریض کے جسم کے اندر اعضا تک سرائیت کر گیا ہو۔‘

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟



کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟

انکیوبیشن یا نگہداشت کا دورانیہ

اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔

سب سے پہلے یہ وائرس ان خلیوں کو متاثر کرتا ہے جو آپ کے گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں ہوتے ہیں اور انھیں 'کورونا وائرس کی فیکٹریوں' میں تبدیل کر دیتا ہے جو مزید ایسے مزید وائرس پیدا کرتی ہیں جن سے مزید خلیے متاثر ہوتے ہیں۔

ابتدائی مرحلے میں آپ بیمار نہیں ہوں گے اور اکثر افراد میں اس بیماری کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوں گی۔
نگہداشت کے دورانیے میں انفیکشن ہونے اور اس کی علامات ظاہر ہونے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے لیکن یہ اوسطاً پانچ دن بتایا جاتا ہے۔

ہلکی پھلکی بیماری

زیادہ تر افراد کے بیماری کے دوران ایک جیسے تاثرات ہوتے ہیں۔ کوویڈ-19 دس میں سے آٹھ افراد کے لیے ایک معمولی انفیکشن ثابت ہوتا ہے اور اس کی بنیادی علامات میں بخار اور کھانسی شامل ہیں۔

جسم میں درد، گلے میں خراش اور سر درد بھی اس کی علامات میں سے ہیں لیکن ان علامات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں ہے۔

بخار اور طبیعت میں گرانی جسم میں انفیکشن کے خلاف قوت مدافعت کے رد عمل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ وائرس کو ایک مشکلات پیدا کرنے والے حملہ آور کے طور پر شناخت کرتا ہے اور پورے جسم میں سائٹوکنز نامی کیمیائی مادہ خارج کرکے سنگل بھیجتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہو رہی ہے۔

اس کی وجہ سے جسم میں مدافعتی نظام حرکت میں آجاتا ہے لیکن اس کی وجہ سے جسمانی درد، تکلیف اور بخار کی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس میں ابتدائی طور پر خشک کھانسی ہوتی ہے (بلغم نہیں آتا) اور یہ شاید خلیوں میں وائرس کی وجہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بےچینی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کو آخر کار بلغم جیسا گاڑھا مواد آنے لگتا ہے جس میں وائرس کی وجہ سے مرنے ہونے والے خلیے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ان علامتوں کو آرام، بہت زیادہ مقدار میں پانی اور مشروب کے ساتھ پیراسیٹامول لے کر دور کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کے لیے ہسپتال یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ مرحلہ ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے بیشتر لوگ اسی مرحلے پر صحت یاب ہو گئے کیونکہ ان کے مدافعتی نظام نے وائرس سے مقابلہ کیا۔

تاہم کچھ لوگوں میں کووڈ-19 کی نسبتاً سنگین حالت پیدا ہوئی۔

ہم اب تک اس مرحلے کے بارے میں اتنا ہی جان پائے ہیں تاہم زمینی مشاہدوں سے پتا چلا ہے کہ اس بیماری میں سردی لگ جانے جیسی علامات بھی پائی گئی ہیں جن میں ناک کا بہنا شامل ہیں۔یہ انفیکشن پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے

۔

شدید بیماری

اگر یہ بیماری بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مدافعتی نظام وائرس کے تیئں ضرورت سے زیادہ رد عمل دکھا رہا ہے۔

جسم میں بھیجے جانے والے کیمیائی سگنل جلن کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اسے بہت نزاکت سے متوازن کیا جانا چاہیے۔ بہت زیادہ انفیکشن سے پورے جسم میں نقصانات ہوتے ہیں۔

کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر نتھالی میکڈرموٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ وائرس مدافعتی نظام میں عدم توازن پیدا کرتا ہے اس کی وجہ سے بہت زیادہ سوزش ہوتی ہے اور یہ کس طرح کا ہے ابھی ہم یہ جان نہیں پائے۔‘

پھیپھڑوں کی انفلیمیشن کو نمونیہ کہتے ہیں۔ اگر منہ کے راستے اندر جانا ممکن ہوتا تو آپ ہوا کی نالی سے ہو کر چھوٹی چھوٹی ٹیوبز سے گزر کر چھوٹی چھوٹی ہوا کی تھیلیوں میں جا پہنچتے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں آکسیجن خون میں شامل شامل ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر نکلتی ہے لیکن نمونیہ کی حالت میں انہی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں پانی بھر جاتا ہے اور سانس اکھڑنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔

کچھ لوگوں کو سانس لینے کے لیے وینٹیلیٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

چین سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 14 فیصد لوگ اس مرحلے تک متاثر ہوئے۔
تشویش ناک بیماری

ایک اندازے کے مطابق اس بیماری میں مبتلا افراد میں سے صرف چھ فیصد کی حالت تشویش ناک حد تک پہنچی۔
اس وقت جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا اور موت کے امکانات پیدا ہو گئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام بے قابو ہو کر گھومنے لگتا ہے اور پورے جسم کو نقصان پہنچاتا چلا جاتا ہے۔

اس کی وجہ سے جسم سیپٹیک شاک میں چلا جاتا ہے اور فشار خون خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے اور اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں یا مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

پھیپھڑوں میں انفلیمیشن کے سبب سانس کی شدید تکلیف پیدا ہوتی ہے اور جسم میں ضرورت کے مطابق آکسیجن نہیں پہنچ پاتی۔ اس کی وجہ سے گردوں کی صفائی کا عمل رک جاتا ہے اور آنتوں کی تہیں خراب ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر بھرت پنکھانیا کا کہنا ہے کہ ’اس وائرس سے اس قدر انفلیمیشن ہوتی ہے کہ لوگ دم توڑ دیتے ہیں اور کئی اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔‘

اگر مدافعتی نظام اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ جسم کے ہر کونے میں چلا جاتا ہے جس سے مزید نقصان ہوتا ہے۔

اس مرحلے تک آتے آتے علاج بہت ہی سخت ہو سکتا ہے جس میں ای سی ایم او یعنی ایکسٹرا کورپوریئل ممبرین آکسیجینیشن شامل ہے۔

یہ ایک مصنوعی پھیپھڑا ہوتا ہے جو موٹی موٹی ٹیوبز کے ذریعے خون جسم سے نکالتا ہے ان میں آکسیجن بھرتا اور واپس جسم میں ڈالتا ہے۔

لیکن آخر کار نقصان ہلاکت تک جا پہنچتا ہے اور اعضا جسم کو زندہ رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

ابتدائی اموات

ڈاکٹرز نے بتایا کہ ان کی بہترین کوششوں کے باجود کیسے کچھ مریض ہلاک ہوگئے۔

چین کے شہر ووہان کے ہسپتال میں جو پہلے دو مریض ہلاک ہوئے وہ پہلے صحت مند تھے، اگرچہ وہ طویل عرصے سے تمباکو نوشی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے پھیپھڑے کمزور تھے۔

پہلے 61 سالہ ایک آدمی کو ہسپتال لانے تک شدید نمونیہ ہوگیا۔ انھیں سانس لینے میں شدید تکلیف تھی اور وینٹیلیٹر پر ڈالنے کے باوجود ان کے پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے اور دل نے کام کرنا بند کر دیا۔ وہ 11 دن بعد مر گئے۔

دوسرے مریض 69 برس کے تھے انھیں بھی سانس کی تکلیف ہوئی۔ انھیں بھی مشینوں کی مدد سے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ ناکافی ثابت ہوا۔ وہ شدید نمونیا اور سیپٹیک شاک کی وجہ سے اس وقت ہلاک ہوگئے جب ان کا بلڈ پریشر گر گیا۔

کیا ماسک ہمیں کرونا وائرس کی منتقلی سے بچا سکتا ہے؟



کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ نظر آنے والی تصاویر ڈاکٹروں والے ماسک پہنے لوگوں کی دکھائی دیتی ہیں۔


انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب یا ماسک کا استعمال دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہے۔ خاص طور پر چین میں کورونا وائرس کے حالیہ پھیلاؤ کے دوران ان کا استعمال بڑھ گیا ہے جبکہ ایسے ہی ماسک چین میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے بھی پہنے جاتے ہیں۔

تاہم ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچاؤ میں ماسک کے پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

لیکن کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ماسک وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

سرجیکل ماسک 18ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا استعمال 1919 میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں آیا جو پانچ کروڑ افراد کی ہلاکت کی وجہ بنا تھا۔

برطانیہ کی سینٹ جارج یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ کیرنگٹن نے .بتایا کہ 'عام استعمال کے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچاؤ کے لیے بہت پراثر ثابت نہیں ہوئے اور زیادہ تر وائرس اسی طریقے سے پھیلے تھے۔ ان کی ناکامی کی وجہ ان کا ڈھیلا ہونا، ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی اور آنکھوں کے بچاؤ کا کوئی انتظام نہ ہونا تھا۔'

لیکن یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچاؤ اور ہاتھ سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔

سنہ 2016 میں نیو ساؤتھ ویلز میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ لوگ ایک گھنٹے میں تقریباً 23 مرتبہ اپنے منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

پروفیسر جوناتھن بال یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں مالیکیولر وائرالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’ایک ہسپتال کے ماحول میں کی جانے والی محدود تحقیق یا کنٹرولڈ سٹڈی میں فیس ماسک بھی انفلوئنزا کے انفیکشن سے بچاؤ میں اتنا ہی اچھا رہا جتنا اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا سانس لینے والا مخصوص آلہ تھا۔‘

سانس لینے کے لیے بنایا جانے والے اس آلے میں ہوا کو صاف کرنے کے لیے فلٹر لگا ہوتا ہے اور یہ خاص طور پر اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر فضا میں موجود خطرناک ذرات سے بچنے میں مدد مل سکے۔

پروفیسر بال مزید کہتے ہیں ’بہرحال جب آپ عمومی سطح پر عوام میں ماسک کے فائدے سے متعلق کی گئی تحقیقات کو دیکھتے ہیں تو اعداد وشمار اتنے مثاثرکن نظر نہیں آتے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک کو طویل وقت تک استعمال کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کونوربیمفرڈ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی میں تجرباتی ادویات کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت زیادہ سودمند ہے۔

وہ کہتے ہیں ’جب چھینک آئے تو منہ ڈھکنا، ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ‘

برطانیہ کے قومی ادرۂ صحت کا کہنا ہے کہ فلو پیدا کرنے والے وائرس وغیرہ سے بچنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے:
  • ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔
  • جتنا بھی ممکن ہو اپنی آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔
  • صحت مند انداز زندگی کو اپنائیں۔

ڈاکٹر جیک ڈننگ پبلک ہیلتھ انگلینڈ میں انفیکشنز اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ منہ پر ماسک پہننا شاید فائدہ مند ہے، حقیقت میں ہسپتال کے ماحول سے باہر اس کے بڑے پیمانے پر فائدہ مند ہونے کے بہت ہی کم شواہد ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ ماسک کو صحیح طریقے سے پہننا چاہیے، اسے تبدیل بھی کرتے رہنا چاہیے اور انھیں محفوظ طریقے سے تلف کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر ڈننگ کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اس حوالے سے خوف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی جسمانی، خاص طور پر ہاتھوں کی صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔

"نیب قانونی راستہ اپنائے گا"اگر شریف خاندان نے تعاون نا کیا تو،



لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو تنبیہی پیغام جاری کیا ہے کہ اگر انھوں نے تعاون نہیں کیا تو ان کے خلاف نیب قانونی راستہ اپنائے گا۔

نیب نے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو آج طلب کر لیا ہے، اس سلسلے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں نیب نے کہا ہے کہ عدم تعاون کی بنا پر نیب قانونی راستہ اپنانے پر حق بجانب ہوگا۔

نیب کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں 17 اپریل کو طلب کیا گیا لیکن وہ کرونا وائرس کا عذر کر کے پیش نہیں ہوئے، آج دوپہر 12 بجے انھیں دوبارہ طلب کیا جا رہا ہے، شہباز شریف آج نیب آفس میں پیش ہوں، پیشی کے موقع پر مکمل حفاظتی اقدامات اپنائے جائیں گے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف کے طلب کیے جانے پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اور شہباز شریف پاکستان آ کر نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، نیب شہباز شریف کی صحت کی ذمہ داری اٹھا لے تو وہ پیش ہو جائیں گے۔ انھوں نے اس سے قبل یہ بھی کہا کہ شہباز شریف سے 22 اپریل (آج) کو جو تفتیش کرنی ہے وہ کیمرہ لگا کر عوام کو دکھائی جائے۔

گزشتہ روز وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا تھا کہ یہ وہ خاندان ہے جس نے بیماری کو بھی بیچا، شہباز شریف گرفتاری سے بچنے کے لیے بہانے کر رہے ہیں، انھیں کسی دن افطاری کرتے ہوئے پکڑا جائے گا۔

برطانیہ میں کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے پلازمہ ٹرائل کی شروعات




برطانیہ میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے خون کے ذریعے وائرس میں مبتلا افراد کے علاج کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔

اس مقصد کے لیے برطانوی ادارے این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ نے ایسے افراد سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے جو حال ہی میں اس کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں۔ ان افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خون کے نمونے فراہم کریں تاکہ اس طریقہ علاج کا جائزہ لینے کے لیے ٹرائلز کی باقاعدہ ابتدا کی جا سکے۔

یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ صحت یاب افراد کے خون میں بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کا شکار افراد کے خون سے وائرس کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔

سائنس دانوں نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے اور یونیورسٹی آف ویلز نے پہلے ٹرائل کااعلان بھی کر دیا ہے۔ لیکن کچھ محققین نے متنبہ کیا ہے کہ برطانیہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت آہستگی سے کورونا کے موثر علاج کی کھوج میں مصروفِ عمل ہے۔

امریکہ میں اسی حوالے سے جاری قومی پلازما پراجیکٹ شروع ہو چکا ہے جس میں 15 سو ہسپتالوں کی معاونت شامل ہے۔

سائنسدانوں کو ابھی بھی یہ اندازہ لگانا ہوگا پلازمہ کے ذریعے طریقہ علاج کتنا موثر ہے۔ لیکن کوویڈ 19 کا کوئی موجودہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے امید کی جا رہی ہے موثر ویکسین کی تیاری تک اس طریقہ علاج کے ذریعے مدد مل سکتی ہے۔

کیا کورونا وائرس کپڑوں، جوتوں، بال، داڑھی، ڈاک، پارسل یا اخبار پر ہوسکتا ہے؟



امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کورونا وائرس سے متعلق طبی ماہرین کے سامنے عوام کے خدشات سے بھرپور سوالات رکھے جن کے ماہرین نے مفصل جواب دیے۔


نیویارک ٹائمز میں عوامی سوالات تھے کہ کیا کورونا وائرس میرے کپڑوں، جوتوں، بال، داڑھی اور ڈاک سے موصول ہونے والے پارسل یا اخبار پر ہوسکتا ہے؟


لوگوں نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا گروسری اسٹور سے خریداری کرکے آنے کے بعد مجھے نہانے اور کپڑے بدلنے کی ضرورت ہے؟ کیا باہر سے آنے کے بعد مجھے جوتے باہر ہی اتار دینے چاہیں؟ 


امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ باہر سے آکر نہانا یا کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں تاہم ہاتھ صفائی سے ضرور دھونے چاہئیں۔

کیا ہوا میں موجود وائرس کپڑوں پر لگ سکتا ہے؟


یہ بات درست ہے کہ کسی متاثرہ شخص کی چھینک یا کھانسی سے وائرل قطرے ہوا میں پھیل سکتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر زمین پر گر جاتے ہیں اور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وائرس کے چھوٹے قطرے تقریباً آدھے گھنٹے تک ہوا میں تیرتے نظر آئے تاہم یہ اتنے بھاری نہیں ہوتے کہ آپ کے کپڑوں سے ٹکرائیں، چنانچہ وہ ایرو ڈانیمکس کے اصولوں کے تحت ہوا میں ہی تیرتے رہتے ہیں۔

ورجنیا ٹیک یونیورسٹی کی ایروسول سائنسدان ڈاکٹر لنزی مار کہتی ہیں کہ کسی انسان کے ارد گرد وائرس کے چھوٹے قطرے ہوا کے بہاؤ کے رخ پر سفر کرتے ہیں چونکہ انسان کی حرکت کی رفتار اس سے کم ہوتی ہے تو جب ہم حرکت کرتے ہیں تو ہم ہوا کو پھیچے دھکیل کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو اگلی بار اگر کوئی آپ کے ارد گرد چھینکے تو اطمینان رکھیں کہ فزکس کے عام اصولوں کے مطابق آپ کا کم رفتار سے حرکت کرتا ہوا جسم ہوا میں موجود وائرس کے قطروں کو پیچھے دھکیل کر آپ کے کپڑوں پرگرنے نہیں دے گا۔ 


انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے بالوں یا داڑھی پر وائرس کے گرنے کے بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے البتہ اگر آپ باہر ہیں اور کوئی شخص آپ کے قریب چھینک دے تو احتیاط کے طور پر آپ کو گھر جاکر کپڑے بدلنے چاہئیں اور نہانا چاہیے۔
وائرس کپڑوں پر جلد سوکھ جاتا ہے


نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس پلاسٹک اور کسی سخت دھاتی سطح پر 3 دن تک اور کارڈ بورڈ پر 24 گھنٹے تک فعال رہ سکتا ہے۔ 


وائرس ماہرین کا کہنا ہے کہ کارڈبورڈ کی طرح کپڑوں میں موجود نیچرل فائبر بھی جذب کرنے کے صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے کسی سخت سطح کے مقابلے میں وائرس کپڑوں پر جلدی سوکھ جاتا ہے۔

جوتے گھروں میں نہ لائیں

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین کے اسپتالوں کے کورونا وارڈز میں 50 فیصد سے زائد طبی عملے کے جوتوں میں کورونا وائرس پایا گیا۔

اس پر ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ کے جوتے دھل سکتے ہیں تو انہیں دھولیں تاہم یہ کورونا وائرس کے لیے اتنا بڑا رسک نہیں، وائپ سے جوتے صاف نہ کریں کیوں کہ اس سے سول میں لپٹے جراثیم آپ کے ہاتھ کو منتقل ہوجائیں گے۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اگر آپ کے گھر میں چھوٹے بچے زمین پر کھیلتے ہیں یا کوئی بیمار موجود ہے جس کا مدافعتی نظام کمزور ہے تو جوتے گھر میں نہ لائیں۔
اخبار یا پارسل سے وائرس منتقل ہونے کے شواہد نہیں ملے

ماہرین نے مزید کہا ہے کہ اخبار یا پارسل سے کورونا وائرس منتقل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ماہرین نے کئی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں جبکہ گزشتہ دنوں برطانوی ماہر نے دھوپ میں بیٹھنے کو مہلک وائرس کیلئے ضرررساں قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا کورونا وائرس 190 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے اور اب تک اس مہلک وائرس کے باعث ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ متاثرہ مریضوں کی تعداد 22 لاکھ سے زائد ہے۔

مہلک وائرس سے امریکا میں اب تک 37 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد 7 لاکھ سے زائد ہے۔


کورونا وائرس : بیوی نے شوہر کو گھر کے اندر آنے سے منع کردیا












نئی دہلی : کورونا وائرس کی وبا نے اپنوں کو بھی بیگانہ کردیا ہے، بھارتی خاتون نے اپنے شوہر کو ٹیسٹ کرائے بغیر گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔


تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست آندھراپردیش میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی اضافہ ہورہا ہے جبکہ عوام میں اس وبا کے حوالے سے بے حد تشویش پائی جاتی ہے۔ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ایک خاتون نے کورونا ٹیسٹ کروانے تک شوہر کو گھر کے اندر آنے سے منع کردیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق نیلور کے علاقے میں سنار کی دکان میں کام کرنے والا ملازم کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے آبائی گھر وینکٹ گری بروقت نہیں پہنچ سکا تھا۔

تاہم کافی دنوں کی بے انتہا کوشش کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچا تو کوئی اور نہیں اسی کی بیوی نے اسے گھر میں آنے سے منع کردیا، بیوی کا کہنا تھا کہ پہلے اپنا کورونا ٹیسٹ کرواؤ جس کے منفی آنے کے بعد گھر میں آنے کی اجازت ملے گی، خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام اپنے خاندان اور پڑوسیوں کی سلامتی کے پیش نظر کیا ہے۔

اس حوالے سے ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے اس شخص کا کورونا ٹیسٹ کروایا گیا تاہم رپورٹ منفی آنے کے بعد ہی شخص گھر میں داخل ہونے کی جازت ملی۔

ملک میں کورونا سے مزید 16 اموات، ہلاکتیں 134 ہوگئیں، مجموعی کیسز 7018 تک جا پہنچے








پاکستان میں کورونا وائرس سے آج مزید 16 اموات ہوئی ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 134 ہوگئی جب کہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ مریضوں کی تعداد 7018 تک پہنچ گئی۔


ملک میں ہونے والی 134 ہلاکتوں میں سے سب سے زیادہ سندھ میں 45 اور خیبرپختونخوا میں 45 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں 35 ، بلوچستان میں 5 ، گلگت 3 اور اسلام آباد میں ایک ہلاکت ہوچکی ہے۔

آج کے کیسز کی صورتحال

آج بروز جمعرات ملک میں کورونا کے مزید 719 کیسز رپورٹ ہوئے اور 16 ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

آج سندھ میں 340 کیسز 4 ہلاکتیں، پنجاب 260 کیسز اور 7 ہلاکتیں، خیبر پختونخوا میں 81 کیسز 3 ہلاکتیں، بلوچستان 25 کیسز اور 2 اموات ، گلگت بلتستان 8 جبکہ اسلام آباد سے مزید 5 کیسز رپورٹ ہوئے۔



سندھ

سندھ میں آج کورونا وائرس کے مزید 340 کیسز سامنے آئے اور 4 ہلاکتیں بھی ہوئیں جس کی تصدیق صوبائی ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کی۔
مرتضیٰ وہاب کے مطابق صوبے میں نئے کیسز سامنے آنے کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 2008 ہوگئی ہے اور ہلاکتیں 45 ہوگئی ہیں۔
مرتضیٰ وہاب نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے میں مزید 16 افراد صحت یاب ہوئے جس کے بعد صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 576 ہوگئی ہے۔

پنجاب

پنجاب میں آج کورونا وائرس کے مزید 260 کیسز سامنے آئے اور 7 ہلاکتیں بھی ہوئیں جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے کیا گیا۔
صوبے میں نئے کیسز اور ہلاکتوں کے بعد متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 3276 اور ہلاکتیں 35 ہوگئی ہیں۔
وزیراعلیٰ کے مطابق صوبے میں تفتان سے آنے والے 701 زائرین، 1257 رائے ونڈ تبلیغی اجتماع کے ارکان، 91 قیدی اور 1227 عام شہری کورونا وائرس میں مبتلا ہیں۔
پنجاب میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے لاہور میں 14، راولپنڈی 9، ملتان 3، رحیم یار خان 2، گجرات 2، بہاولپور، جہلم، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ایک ہلاکت ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ صوبے میں اب تک کورونا سے 630 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان میں آج بروز جمعرات کورونا کے مزید 25 کیسز اور 2 اموات رپورٹ ہوئیں جس کے بعد صوبے میں کیسز کی مجموعی تعداد 305 ہوگئی ہے جب کہ 5 افراد وائرس سے جاں بحق ہوئے ہیں۔
صوبائی ترجمان لیاقت شاہوانی نے بلوچستان میں مزید کیسز کی تصدیق کی۔
گزشتہ روز لیاقت شاہوانی نے مریضوں کی مجموعی تعداد 281 بتائی تھی تاہم رات گئے ایک کیس کی رپورٹ منفی آنے کے بعد اسے مجموعی کیسز سے ہٹادیا گیا تھا اور یوں کُل تعداد 280 ہوگئی تھی۔
ادھر صوبائی محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان میں کورونا کے 142 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

اسلام آباد

وفاقی دارالحکومت سے آج کورونا کے مزید 5 کیسز سامنے آئے جو سرکاری پورٹل پر رپورٹ ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں نئے کیسز کے بعد متاثرہ مریضوں کی تعداد 145 ہوگئی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں اب تک کورونا سے صرف ایک مریض کا انتقال ہوا ہے۔

خیبرپختونخوا

خیبرپختونخوا میں جمعرات کو 81 نئے کیسز اور 3 اموات سامنے آئیں جس کے بعد کل ہلاکتوں کی تعداد 45 ہوگئی جب کیسز کی مجموعی تعداد 993 ہوگئی۔
صوبے میں مہلک وائرس سے جنگ جیتنے والے افراد کی تعداد 205 ہوچکی ہے۔

آزاد کشمیر

آزاد کشمیر سے جمعرات کو کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا البتہ بدھ کو کورونا کے مزید 3 کیسز سامنے آئے تھے جو سرکاری پورٹل پر رپورٹ ہوئے۔
پورٹل کے مطابق علاقے میں کیسز کی مجموعی تعداد 46 ہوگئی ہے تاہم اب تک کوئی ہلاکت سامنے نہیں آئی۔
واضح رہے کہ آزاد کشمیر میں بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 24 مارچ سے تین ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن ہے۔

گلگت بلتستان

گلگت بلتستان میں جمعرات کو کورونا کے مزید 8 کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد علاقے میں کیسز کی مجموعی تعداد 245 ہو گئی۔
گلگت بلتستان میں اب تک 183 افراد صحتیاب ہوگئے ہیں جبکہ زیر علاج مریضوں کی تعداد صرف 59 رہ گئی ہے۔گلگت میں مہلک وائرس سے 3 افراد وفات پاچکے ہیں جن میں وائرس کی تشخیص کرنے والے ڈاکٹر اسامہ بھی شامل ہیں۔

کراچی میں 326 اموات کی اصل کہانی سامنے آگئی




کراچی: شہر قائد میں 6 ماہ میں کتنی اموات ہوئیں، کراچی کے 31 بڑے قبرستانوں میں کتنی میتیں دفنائی گئیں سب ڈیٹا حاصل کرلیا۔


رپورٹ کے مطابق کراچی میں کرونا وائرس سے بڑے پیمانے پر اموات کی خبریں غلط نکلیں، شہر میں گزشتہ ایک ماہ میں ہونے والی تمام اموات کی وجہ کرونا نہیں


نیوز کے مطابق 15 مارچ سے 13 اپریل تک ہونے والی 759 اموات کی وجہ کچھ اور ہے، ایدھی ہومز میں غسل دی گئی میتوں کے زیادہ تر لواحقین سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ 31 مارچ کو انتقال کرجانے والی خاتون کے علاوہ کسی کی بھی موت کرونا سے نہیں ہوئی تھی۔

ایدھی ذرائع کے مطابق 15 مارچ سے 31 مارچ تک 371 میتوں کو غسل دیا گیا جن میں 249 مرد اور 121 خواتین شامل تھیں۔


مرحومین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اکثر افراد طویل عرصے کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا تھے اور مرنے والوں کے اہلخانہ کے پاس اسپتالوں کے ساتھ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں وجہ موت درج ہے۔


لواحقین کے مطابق اکثر افراد کا انتقال دل کا ادورہ یا فالج کے اٹیک سے ہوا، کینسر، جگر اور گردے کی بیماریاں بھی انتقال کی وجہ بنیں، ایک شخص چھالیہ گلے میں پھس جانے سے انتقال کرگیا۔


ذرائع کے مطابق 15 سے 31 مارچ تک غسل دی گئی میتوں میں اکثر کی عمر 50 سال سے زائد تھیں، انتقال کرجانے والوں میں سے 358 افراد کی عمر 41 سے 88 سال کے درمیان تھیں۔


پندرہ مارچ سے 31 مارچ تک غسل دی گئی میتوں میں اکثر کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔

جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی




ابو جان ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ
کسی قبرستان میں ایک شخص نے رات کے وقت نعش کیساتھ زنا کیا۔
بادشاہ وقت ایک نیک صفت شخص تھا اسکے خواب میں ایک سفید پوش آدمی 
آیا اور اسے کہا کہ فلاں مقام پر فلاں شخص اس گناہ کا مرتکب ہوا ہے، اور 
اسے حکم دیا کہ اس زانی کو فوراً بادشاہی دربار میں لا کر اسے مشیر خاص کے عہدے پر مقرر کیا جائے۔ بادشاہ نے وجہ جاننی چاہی تو فوراً خواب ٹوٹ گیا۔ وہ 
سوچ میں پڑ گیا۔ بہر حال سپاہی روانہ ہوئے اور جائے وقوعہ ہر پہنچے، وہ 
شخص وہیں موجود تھا۔۔ سپاہیوں کو دیکھ کر وہ بوکھلا گیا اور اسے یقین ہو گیا 
کہ اسکی موت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔ اسے بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا۔ 
بادشاہ نے اسے اسکا گناہ سنایا اور کہا ۔ آج سے تم میرے مشیر خاص ہو، 

دوسری رات بادشاہ کو پھر خواب آیا۔ 
تو بادشاہ نے فوراً اس سفید پوش سے اس کی وجہ پوچھی کہ ایک زانی کیساتھ ایسا کیوں کرنے کا کہا آپ نے؟؟ سفید پوش نے کہا

اللّٰہ کو اسکا گناہ سخت نا پسند آیا، چونکہ اسکی موت کا وقت نہیں آیا تھا اسی لیے تم سے کہا گیا کہ اسے مشیر بنا لو، تاکہ وہ عیش میں پڑ جائے اور کبھی اپنے گناہ پر نادم ہو کر معافی نا مانگ سکے۔ کیوں کہ اسکی سزا آخرت میں طے کر دی گئی ہے۔ مرتے دم تک وہ عیش میں غرق رہے گا، بلکہ خوش بھی ہوگا کہ جس گناہ پر اسے سزا دی جانے چاہیے تھی اس گناہ پر اسے اعلیٰ عہدہ مل گیا۔۔
سو اسے گمراہی میں رکھنا مقصد تھا۔۔

ابو اٹھے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا۔۔

جب گناہوں پر آسانی ملنے لگے تو سمجھ لینا آخرت خراب ہو گئی۔ اور توبہ کے دروازے بند کر دیے گئے تم پر۔۔
میں سن کر حیران رہ گیا۔۔ اپنے گریباں میں اور آس پاس نگاہ دوڑائی۔
کیا آج ایسا نہیں ہے؟؟ 

بار بار گناہوں کا موقع ملتا ہے ہمیں اور کتنی آسانی سے ملتا ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہوتی ہماری۔ ہم خوش ہیں۔ عیش میں ہیں۔۔ کتنے ہی مرد و خواتین کتنی ہی بار گھٹیا فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مرد اسے اپنی جیت اور عورت اپنی جیت کا نام دیتی ہے۔

خدارا اس لعنت سے بچیں ۔ اس میں ملوث ہونا کوئی کمال نہیں
بچنا کمال ہے۔۔ باز رہنا کمال ہے۔ سوچیے ، نکلیے اس گناہ سے
کیوں حیا کا اٹھ جانا۔ ایمان اٹھ جانے کی نشانی ہے۔ نشانی ہے اس بات کی کہ اندھیری قبر میں بہت برا ہونے والا ہے۔

خدا ہم سب کو ہدایت دے۔۔

کرونا وائرس سے متاثر ہوکر مرنے والےشخص کی نماز جنازہ ادا کی گئ۔





فیصل آباد ۔۔ کرونا وائرس سے متاثر ہوکر مرنے والے افراد کی نماز جنازہ ادا کردی گئی ھے۔جس میں آپ دیکھ سکتے  ھے کہ بہت کم افراد نے شرکت کی ھے۔ لیکن شکر ہے کہ تدفین کے بنیادی اصول پورے کر دیئے گئے۔